غزوہٴ قسطنطنیہ میں یزید کی عدمِ شرکت

حدیث و تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ (۱)

 

از: مفتی محمد ابوبکر قاسمی                         

‏ مدرسہ اسلامیہ شکرپور، بھروارہ، دربھنگہ، بہار      

 

          بعثتِ نبوی کے وقت دنیامیں قیصر وکسریٰ کی دو مستحکم حکومتیں تھیں، دوسرے سلاطین انھیں حکومتوں کے باج گزار تھے، مکی زندگی میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری مستعدی کے ساتھ مکہ میں رہ کر اور کبھی کبھار مکہ کے اطراف میں لگنے والے میلوں اور بازاروں میں جاکر اسی طرح طائف پہنچ کر دعوتِ اسلام کا فریضہ انجام دیا،اور ہجرت کے بعد مدنی زندگی میں دعوت کے ساتھ اسلامی حکومت کے قیام واستحکام کا کام پوری تیاری اور خداداد حکمت وبصیرت کے ساتھ انجام دیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ کفارِمکہ جو آپ کے شدید دشمن تھے، ان کے ساتھ صلح ہوگئی، پھر مکہ بھی فتح ہوگیا۔ فتحِ مکہ کے بعد آپ نے حضرت زید کی امارت میں رومیوں سے قتال کا آغاز فرمایا۔ غزوہٴ موتہ ہی سے رومیوں سے باضابطہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے، غزوہٴ تبوک اور جیشِ اسامہ کی تیاری وروانگی اور وفات نبوی کے بعد خلافتِ صدیقی میں جیشِ اسامہ کی ملکِ شام پہنچ کر فاتحانہ جنگ، قتالِ روم ہی کا حصہ ہے، خلافتِ فاروقی میں قیصر وکسریٰ دونوں مستحکم حکومتوں کا تختہ پلٹ دیاگیا، کسریٰ کی حکومت کا تو صفحہٴ ہستی سے نام ہی مٹ گیا؛ البتہ قیصرِ روم کو دمشق، حمص، شام اور مصر سے کھدیڑ کر قسطنطنیہ میں پناہ لینے پر مجبورکردیاگیا، ۲۰ھ میں قیصرِ روم ہرقل کی وفات ہوئی جس کو صلحِ حدیبیہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھا تھا، جس نے اپنے دربار میں حضرت ابوسفیان کو بلواکر آپ کے احوال دریافت کیے تھے جس کا تفصیلی قصہ کتبِ حدیث میں موجود ہے، ہرقل کی وفات کے بعد قسطنطین بادشاہ ہوا۔ یاد رہے کہ قسطنطنیہ اور عربستان کے درمیان دریا حائل ہے، عربستان سے متصل دریا سے اِس پار کا خطہ تو حضراتِ صحابہ نے حضرت عمر ہی کی خلافت کے ایام میں رومیوں سے فتح کرلیا تھا؛ لیکن دریا پارکرکے رومیوں سے جنگ کرنے کی اجازت سیدنا عمر نے اپنے دورِخلافت میں نہیں دی؛ البتہ سیدنا عثمان غنی کی خلافت کے زمانہ میں حضرت امیرِ معاویہ جو ملک شام کے گورنر تھے، ان کے پیہم اصرار کی وجہ سے آپ نے ان کو غزوة البحر کی اجازت دے دی؛ چنانچہ دریا پارکرکے رومیوں سے جنگ کا آغاز سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی کی خلافت میں خود انھیں کی اجازت سے ۲۷ھ میں کردیا تھا۔

          یہاں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خالہ امِ حرام بنت ملحان کے بقول خود ان کے گھر بوقتِ قیلولہ غزوة البحر سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خواب دیکھا تھا اور آپ دونوں خواب سے مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے تھے، حضرت ام حرام نے دونوں مرتبہ آپ سے مسکراکر بیدار ہونے کا سبب دریافت کیا تھا، آپ نے دونوں مرتبہ حضرت ام حرام کو یہ جواب دیا تھا وأیت قومًا من امتی یرکبون ظہر ہٰذا البحر کالملوک علی الاسرة (سنن دارمی، کتاب الجہاد باب فضل غزوة البحر، حدیث ۲۴۶۴، مسند ابی یعلی حدیث ۲۶۷۵)

          حضرت ام حرام سے مذکورہ روایت کو دو بزرگوں نے نقل کیا ہے: ایک حضرت انس جو صحابی رسول ہیں اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص ہیں اور حضرت ام حرام کے بھانجہ ہیں۔ گویا گھر کے آدمی ہیں، اور دوسرے راوی عمیر بن الاسود العنسی ہیں، جو صحابی تو نہیں ہیں؛ البتہ مخضرم ہیں اور ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا ہے، حضرت ام حرام والی روایت جس کے راوی ان سے حضرت انس ہیں اس روایت کو تمام صحاح ستہ کے مصنّفین نے نقل کیا ہے؛ بلکہ امام بخاری نے تو اس روایت کو حضرت انس سے مختلف کتابوں اور متفرق ابواب میں چھ مرتبہ نقل کیا ہے اور بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے، قدرِ مشترک حضرت انس کی تمام روایات کا مضمون یکساں ہے؛ البتہ حضرت ام حرام کی روایت کے دوسرے راوی عمیربن الاسود العنسی کی روایت کو میری معلومات کے مطابق اور میرے ناقص مطالعہ کی روشنی میں صرف سیدنا امام بخاری نے کتاب الجہاد، باب ما قیل فی قتال الروم حدیث ۲۸۳۶، ج۱، ص۴۰۹ و ۴۱۰ پر نقل کیا ہے، حضرت انس سے مروی روایات کی تحقیق وتخریج کے لیے ذیل میں حوالجات کی تفصیل تحریر کی جاتی ہے:

          (۱) صحیح بخاری کتاب الجھاد باب۳، الدعاء بالجھاد والشھادة، حدیث ۲۷۰۷، جلد اول، ص۳۹۱۔

          (۲) صحیح بخاری کتاب الجھاد باب۸، فضل من یصرع فی سبیل اللہ، حدیث۲۷۱۷، جلد اول، ص۳۹۲۔

          (۳) صحیح بخاری کتاب الجھاد، باب ۶۳، غزوة المرأة فی البحر، حدیث۲۷۹۲، جلد اوّل، ص۴۰۳۔

          (۴) صحیح بخاری کتاب الجھاد، باب۷۵، رکوب البحر، حدیث ۲۸۰۸، جلد اوّل، ص۴۰۵۔

          (۵) صحیح بخاری کتاب الاستیذان، باب ۴۱، من زار قوماً فقال عندھم، حدیث ۶۰۴۱، جلد دوم، ص۹۲۹۔

          (۶) صحیح بخاری کتاب التعبیر، باب ۱۲، الرویا بالنھار، حدیث ۶۷۳۲، جلددوم، ص۱۰۳۶۔

          (۷) صحیح مسلم کتاب الامارة، باب فضل الغزو فی البحر، حدیث ۴۸۱۹ تا ۴۸۲۳ پانچ روایات۔

          (۸) نسائی شریف کتاب الجھاد فضل الجھاد فی البحر جلد دوم، ص۵۲۔

          (۹) جامع ترمذی، ابواب فضائل الجھاد، باب ما جاء فی غزوة البحر جلد اول، ص۲۹۴۔

          (۱۰) سنن ابی داؤد کتاب الجھاد، باب۱۱، فضل الغزو فی البحر

          (۱۱) سنن ابن ماجہ کتاب الجھاد باب فضل غزوة البحر جلد دوم، ص۱۹۹۔

          (۱۲) سنن دارمی کتاب الجھاد، باب ۲۹، فی فضل غزوة البحر، حدیث ۲۴۶۴، جلد دوم، ص۲۷۶۔

          (۱۳) مسند ابی یعلی، حدیث ۲۶۷۵۔

          (۱۴) صحیح ابن حبان، حدیث ۴۶۰۸۔

          حضرت انس کی تمام روایات میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خواب دیکھنے اور مسکراتے ہوئے اٹھنے اور پھر حضرت ام حرام کے اس غزوہ میں شرکت کی دعا کرانے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا فرمانے کا تفصیلی ذکر ہے، حضرت ام حرام کے پوچھنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے خواب کی جو تفصیل بیان کی ہے اس کو امام بخاری نے اپنی صحیح کی متعدد جگہوں میں حسب ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے:

          (۱) ناس من امتی عرضوا علی غزاة فی سبیل اللہ یرکبون ․․․ ھذا البحر ملوکا علی الأسرة او مثل الملوک الأسرة (بخاری۱/۳۹۱، ۲/۹۲۹، ۲/۱۰۳۶)

          (۲) ناس من أمتی عرضوا علی یرکبون ھذا البحر الأخضر کالملوک علی الأسرة (بخاری ۱/۳۹۲)

          (۳) ناس من أمتی یرکبون البحر الأخضر فی سبیل اللہ مثلھم مثل الملوک (بخاری ۱/۴۰۳)

          (۴) عجبت من قوم من أمتی یرکبون البحر کالملوک علی الأسرة (بخاری ۱/۴۰۵)

          ترجمہ: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے دکھائے گئے، یا مجھے اپنی امت کے کچھ لوگوں پر تعجب ہے کہ وہ لوگ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے دریا کے بیچ یا دریا کے ظاہری سطح پر یا سبز دریا میں تختوں پر بادشاہوں (کے بیٹھنے) کی طرح دریا میں (کشتیوں پر) سوار ہیں۔

$ $ $

          دوسرے خواب کے الفاظ کو امام بخاری نے یوں نقل کیا ہے:

          ثم وضع راسہ ثم استیقظ وھو یضحک فقلت ما یضحک یا رسول اللہ قال:

          (۱) ناس من أمتی عرضوا علی غزاة فی سبیل اللہ کما قال فی الأول (بخاری ۱/۳۹۱، ۲/۱۰۳۷)

          (۲) ثم نامہ الثانیة ففعل مثلھا فقالت مثل قولھا فأجابھا مثلھا (بخاری ۱/۳۹۲)

          (۳)ش ثم عاد فضحک فقالت لہ مثل أوممّ ذلک فقال لھا مثل ذلک (بخاری ۱/۴۰۳)

          (۴) ثم نامہ فاستیقظ وھو یضحک فقال مثل ذلک مرتین أو ثلاثا (بخاری ۱/۴۰۵)

          ترجمہ: پہلے خواب سے بیدار ہونے کے بعد حضرت ام حرام سے اس خواب کو بیان کرنے پھر حضرت ام حرام کے سوال وجواب اور دعا کی درخواست وغیرہ کرنے اور آپ کے دعا دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ گئے پھر دوبارہ آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، حضرت ام حرام کے سوال کرنے اور مسکرانے کا سبب پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی کی طرح جواب دیا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے اور یہ بات آپ نے دو یا تین مرتبہ کہی۔ امام دارمی نے دوسرے خواب کے الفاظ نہایت ہی صراحت کے ساتھ یوں نقل کیے ہیں، رأیت قوما من أمتی یرکبون ظھر ھذا البحر کالملوک علی الأسرة (سنن دارمی ۲/۲۷۶) میں نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کو اس دریا کی پُشت پر تختوں پر بادشاہوں کی طرح (کشتیوں پر) سوار دیکھا۔

          امام دارمی نے پہلے خواب کا ذکر بھی بعینہ مذکورہ الفاظ کے ذریعہ تحریر کیا ہے، حضرت انس کی سند سے حضرت ام حرام کی تمام روایات کا مضمون یکساں ہے، دونوں خواب کا تعلق دریائی سفر سے ہے، پہلے سفر میں حضرت ام حرام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی دعا فرمائی تھی؛ چنانچہ وہ غزوہ حضرت عثمان کی خلافت میں سیدنا امیر معاویہ نے شروع فرمایا تھا جس میں حضرت ام حرام بھی شریک ہوئی تھیں اور اسی غزوہ سے واپسی میں سواری کے جانور سے گرکر ان کی وفات ہوگئی تھی۔ ان تمام باتوں کا تذکرہ خود بخاری کی روایات میں نیز حضرات شارحین نے مفصل طور پر کیاہے، بخاری کی مختلف روایات کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

          (۱) فرکتبتُ الْبَحْرَ فِیْ زَمَانِ مُعاوِیَّةَ فَصَرَعْتُ عَنْ دَابَّتِھا حِیْنَ خَرَجْتُ مِنْ الْبَحْرِ فَھَلَکْتُ (بخاری ۱/۳۹۱) نیز ملاحظہ ہوں (بخاری۲/۹۳۰ و ۱۰۳۷)

          (۲) فَخَرَجْتُ مَعَ زَوْجِھَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِیًا أوَّلَ مَارَکِبَ الْمُسْلِمُوْنَ الْبَحْرَ مَعَ معَاوِیَّةَ فَلَا انْصَرَفُوْا مِنْ غَزْوِھِمْ قَافِلِیْنَ فَنَزَلُوْا الشَّامَ فَقَرُبَتْ الَیْھَا دَابَّةٌ لِتَرْکَبَھَا فَصَرَعَتْھَا فَمَاتَتْ (بخاری ۱/۳۹۲)

          (۳) قَالَ أنَسٌ فَرَکِبْتُ الْبَحْرَ مَعَ بِنْتِ قُرْظَةَ فَلَمَّا قَفَلَتْ رَکِبْتُ دَابَّتَھَا فَوَقَصَتْ بِھَا فَسَقَطَتْ عَنْھَا فَمَاتَتْ (بخاری ۱/۴۰۳)

          (۴) فَلَمَّا رَجَعْتُ قَرُبَتْ دَابَّتُھَا لِتَرْکَبَھَا فَوَقَعَتْ فَانْدَقَّتْ عُنُقُھَا (بخاری۱/۴۰۵)

          علامہ عینی نے عمدة القاری میں مذکورہ غزوہ کا تذکرہ اس طرح کیا ہے:

          أخَذَھَا مَعَہ لَمَّا غَزَا قَبْرِصُ فِی الْبَحْرِ سَنَةَ ثَمَانِ وَّعِشْرِیْنَ وَکَانَ مُعَاوِیَةُ أوَّلَ مَنْ رَکِبَ الْبَحْرَ لِلْغَزَاةِ فِیْ خِلَافَةِ عُثْمَانَ َرضِیَ اللہُ تعالی عَنْہُ (عمدة القاری ۱۰/۱۹۷)

خلاصہ

          مذکورہ غزوہ سب سے پہلے سیدنا عثمان غنی کی خلافت میں حضرت امیر معاویہ نے انجام دیا، جس میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بنت قرظہ اور حضرت ام حرام شریک تھیں، جب مجاہدین کا قافلہ لوٹ کر ملکِ شام واپس آیاتو سواری کے جانور سے گرنے کے سبب حضرت ام حرام کی گردن ٹوٹ گئی اوراسی گردن ٹوٹنے کے سبب ان کی وفات ہوگئی۔ حضرت ام حرام کے شوہر کا نام عبادة بن الصامت ہے، جو سب سے پہلے ہونے والے اس دریائی سفر میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک تھے۔ (ملاحظہ ہو بخاری ۱/۳۹۲)

          حضرت انس کی سند سے مروی حضرت ام حرام کی تمام روایات کو پڑھ جائیے کسی میں صراحت کے ساتھ نہ قتالِ روم کا تذکرہ ہے اور نہ ہی اس غزوہ کے شرکا کے لیے صراحت کے ساتھ جنت کی بشارت ہے؛ البتہ بعض شارحین نے حدیث انس میں وارد الفاظ مُلُوْکاً عَلی الأسْرَةِ یا مِثْلَ الْمُلُوْکِ عَلی الأسْرَةِ (بخاری ۱/۳۹۱) یا کالملوک علی الأسرة (بخاری ۱/۴۰۵) کا ایک مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان غازیوں اور مجاہدوں کا حال جنت میں تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کے مانند ہوگا؛ لیکن دوسرے شارحین نے اس مفہوم کی تردید بھی فرمائی ہے۔

          اب حضرت ام حرام کی حدیث کی دوسری سند اور اس کے دوسرے راوی عمیر بن الاسود العنسی سے مروی الفاظ کو ملاحظہ فرمائیے جس کی شرح میں بخاری کے مہلب جیسے بعض شارحین نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت کے ساتھ یزید علیہ ما علیہ جیسے متنازع فیہ شخص کی ظلم وجبر کی تلواروں سے حاصل کی ہوئی حکومت کو خلافتِ راشدہ اور خود یزید کو جنتی ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایاہے اور سیدنا حسین جیسے نوجوانانِ اہل جنت کے سردار کو باغی اور ان کی مظلومانہ شہادت کو قتلِ ناحق کہنے کے بجائے قتلِ صحیح ثابت کرنے کے لیے پورا زورِ قلم صرف کیاگیاہے؛ اس لیے ان سطور میں ہم حدیث وتاریخ کا تجزیاتی مطالعہ کرکے اہلِ عقل ودانش اور اصحابِ علم وفہم پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بخاری کی مذکورہ عمیر بن الاسود والی روایت کے متعلق اربابِ بصیرت حضرات کیا کہتے ہیں، نیز یزید اس حدیث میں وارد بشارت کا مصداق ہے یا نہیں؟ پہلے زیر بحث روایت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسے اپنی صحیح کے کتاب الجہاد باب ما قیل فی قتال الروم ۱/۴۰۹ میں بالفاظ ذیل نقل کیا ہے:

          عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أنَّ عُمَیْرَ بْنَ الأسْوَدِ الْعَنَسِيّ حَدّثَہ أنَّہ أتَیٰ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ وَھُوَ نَازِلٌ فِیْ سَاحَةِ حِمَّصَ وَھُوَ فِیْ بِنَاءٍ لَہ وَمَعَہ أمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَیْرٌ فَحَدَّثَنَا أمُّ حَرَامٍ أنَّھَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلی اللہُ علیہ وسلَّم یَقُوْلُ أوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أمَّتِيْ یَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوْا قَالَتْ أمُّ حَرَامٍ قُلْتُ یَا رَسولَ اللّٰہِ! أنَا فِیْھِمْ قَالَ: أنْتِ فِیْھِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أمَّتِيْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَةَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّھُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِیْھِمْ یَا رَسُوْلَ قَالَ: لاَ (بخاری ۱/۴۰۹)

          (۱) اس روایت میں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خوابوں کا ذکر نہیں ہے؛ جبکہ پہلی روایت میں دونوں خوابوں کی مکمل صراحت ووضاحت ہے۔

          (۲) پہلی روایت میں شرکائے غزوہ کے لیے صراحت کے ساتھ کوئی بشارت نہیں ہے؛ لیکن اس روایت میں پہلے دریا ئی سفر والے لشکر کے لیے أوْجَبُوْا کا لفظ وارد ہوا ہے جس کا مطلب اکثر نے أوْجَبُوْا الْجَنَّةَ اور بعض نے أوْجَبُوا الْمَحَبَّةَ (عمدة القاری) کے الفاظ کے ذریعہ بیان کیاہے۔

          (۳) اور دوسرے لشکر کے لیے جو مدینہٴ قیصر پر حملہ کرنے میں پہل کرے گا مَغْفُوْرٌ لَّھُمْ کا ذکر ہے کہ اس دوسرے لشکر کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے تراجمِ ابواب سے متعلق اپنے رسالہ میں جو بخاری جلد اول کے ساتھ مطبوع ہے، زمانہٴ ماضی کے گناہ کی معافی کے ساتھ مختص مانا ہے۔ (ملاحظہ ہو بخاری جلد اول شرح تراجم ابواب بخاری ص۳۱، باب ما قیل فی قتال الروم)

          نیز اسلام، حج اور ہجرت کے متعلق مسلم شریف کی حدیث میں صاف صراحت کے ساتھ مروی ہے یَھْدِمُ أوْ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہ أوْ قَبْلَھَا (ملاحظہ ہو مسلم شریف کتاب الایمان باب ۵۳ کونُ الاسلامِ یَھْدِمُ مَا کان قبلَہ، حدیث ۲۲۹، ۱/۷۶)

          ترجمہ: اسلام، حج اور ہجرت سابقہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے، یہ حضور نے حضرت عمرو بن العاض سے فرمایا تھا جب وہ مسلمان ہوئے تھے؛ لیکن اس کے باوجود ان کا حال یہ تھا کہ وہ مرنے کے وقت کافی دیر تک روتے رہے، ان کے رونے کا تفصیلی قصہ اور رونے کے سبب کو جاننے کے لیے مسلم شریف کے مذکورہ باب کا مطالعہ کیجیے۔

          یزید کو جنتی ثابت کرنے والوں کے فہمِ خاطی کے سمجھنے کے لیے اوپر کا مذکورہ بیان ہی کافی ہے، پھر بھی مزید وضاحت کے لیے مدلل بحث ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ وباللہ التوفیق

          یہاں یہ بات اچھی طرح ملحوظِ خاطر رہے کہ حضرت امِ حرام کی حدیث کے دوسرے راوی عمیربن الاسود العنسی ملک شام کے رہنے والے ہیں ان کا نام عمرو اور لقب عمیر ہے۔ یہ صحابی تو نہیں البتہ بہت عبادت گزار تھے، تابعین مخضرم میں ان کا شمار ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی تعریف کیا کرتے تھے، ان کی وفات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں ہوئی، بخاری شریف میں ان کی صرف یہی ایک حدیث ہے وَلَیْسَ لَہ فِیْ الْبُخَارِيّ سِوَیٰ ھَذَا الْحَدِیْثِ (فتح الباری ۶/۱۳۱)

          عمیر بن الاسود کے شاگر خالد بن معدان ہیں یہ زیادہ تر مرسل روایات بیان کرتے ہیں، ان کے شاگرد ثور بن یزید ہیں، علامہ عینی نے ان کا تعارف حیوان مشہور کہہ کر کرایا ہے کہ یہ اس کے ہم نام ہیں، یہ حمص کے باشندے ہیں، یہ مذہباً قدریہ فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے دادا جنگِ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، اسی جنگ میں وہ مقتول ہوئے، ثور کا یہ حال تھا کہ جب وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے تو کہتے کہ میں ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جس نے میرے دادا کو قتل کردیا ہو۔ اہل حمص نے قدریہ مذہب رکھنے کی وجہ سے انھیں شہر بدر کردیا تھا، چنانچہ تہذیب التہذیب میں ہے:

          یُقَالُ انَّہ قَدْرِیَّا وَکَانَ جَدُّہ قَتَلَ یَوْمَ صِفِّیْنَ مُعَاوِیَةَ وَکَانَ ثَوْرًا اذَا ذَکَرَ عَلِیًّا قَالَ لاَ أحِبُّ رَجُلاً قَتَلَ جَدِّيْ نَفَاہُ أھْلُ الْحِمَّصِ لِکَوْنِہ قَدْرِیًّا (تہذیب التہذیب ۲/۳۴، تقریب التہذیب ۱/۷۴) قَالَ أحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ کَانَ ثَوْرٌ یَریٰ الْقَدْرَ وَکَان أھْلُ الْحِمَّصِ نَفَوْہُ أخْرَجُوْہُ وَأحْرَقُوْا دَارَہ (میزان الاعتدال ۱/۳۸۴)

          ثور کے شاگرد یحییٰ بن حمزہ ہیں یہ بھی دمشق کے رہنے والے ہیں اور ان کا بھی تعلق فرقہٴ قدریہ سے ہے اور یحییٰ بن حمزہ کے شاگر اسحاق بن یزید دمشقی ہیں، ان سے محدث ابوحاتم نے روایتِ حدیث لکھی ہے، امام ابوزرعہ راوی نے بھی ان کا زمانہ پایا ہے؛ مگر ان سے کوئی روایت نہیں لکھی ہے، قَالَ أبِیْ حَاتِمٍ کَتَبَ أبِیْ عَنْہُ وَسَمِعْتُ أبَا زُرْعَةَ یَقُوْلُ أدْرَکْنَاہُ وَلَمْ نَکْتُبْ عَنْہُ (میزان الاعتدال، تہذیب التہذیب)

          بخاری کے مذکورہ رواةِ حدیث کے حالات پڑھنے کے بعد غور کیجیے، ان سے مروی حدیث جہاں غریب ہے وہیں شاذ ہے (شرح نخبہ ص۴۰ و ۴۱)۔ اب خود ہی غور کیجیے کہ یہ حدیث موضعِ بحث میں قابلِ استدلال ہے یا نہیں؟ ویسے خود امام بخاری نے ترجمة الباب میں ”قیل فی قتالِ الروم“ کا عنون قائم کرکے فضائل کے باب میں تسامح کے اصول کو ملحوظ رکھ کر اس روایت کو ذکر کیا ہے، جیساکہ آیتُ الکرسی کی فضیلت میں شیطان کے موید بالدلیل جملہ کو نقل کیا ہے۔ فَافْھَمْ وَاللہُ أعْلَمُ

          رواةِ حدیث کے ضروری احوال جاننے کے بعد اب ہم باب اور متن حدیث کی عبارات پر غور کرتے ہیں۔ امام بخاری نے باب ما قیل فی قتال الروم کے عنوان سے قائم کیا ہے، قیل کے لفظ پر غور کیجیے اور قتالِ روم کو سمجھنے کے لیے سنن دارمی کی ایک حدیث پڑھیے۔

          عَنْ أبِيْ قَبِیْلٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ بَیْنَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی عَلَیْہِ وسلم نَکتُبُ اذَا سُئِلَ رَسُولُ اللہِ أيَّ الْمَدِیْنَتَیْنِ تُفْتَحُ أوَّلاً قُسْطُنْطُنْیَةُ أوْ رُوْمِیَّةُ فَقَالَ النَّبِيُ صَلَّی اللہُ علیہ وسلّم لاَ بَلْ مَدِیْنَةُ ھِرَقْلَ أوَّلاً (سنن دارمی مقدمہ باب ۴۳ من رخص فی کتابة العلم ۱/۱۳۷)

          اس حدیث کی سند صحیح ہے، ملاحظہ ہو مصنف بن ابی شیبہ ۵/۱۳۲۹، المعجم الکبیر حدیث ۶۱۔

          آگے متنِ حدیث ہے، اس میں دو غزوہ کا ذکر ہے، ایک غزوة البحر کا جس کے الفاظ ہیں أوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أمَّتِيْ یَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ أوْجَبُوْا (بخاری ۱/۴۰۹)

          اس حدیث کے مصداق بلاشبہ حضرت معاویہ ہیں حضرت انس سے مروی روایات میں بھی بخاری شریف کے دیگر ابواب وکتب میں سیدنا امیرمعاویہ کے نام کی صراحت ہے، اور اس غزوة البحر میں سیدنا معاویہ اور ان کی اہلیہ کے ساتھ حضرت ام حرام اور ان کے شوہر عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرات بھی شریکِ غزوہ تھے؛ البتہ دوسرا غزوہ کون سا ہے بحری یا بری تو اس سلسلہ میں حضراتِ شارحین میں اختلاف ہے؛ لیکن حضرت انس کی صحاحِ ستہ اور دیگر کتب حدیث میں مروی روایات کی روشنی میں میرے نزدیک دوسرے غزوہ کا بھی بحری ہونا متعین ہے۔

          اب آئیے حدیث کے الفاظ کو پڑھیے، جو دوسرے غزوہ سے متعلق عمیر بن الاسود کی روایت میں آئے ہیں: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم أوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أمَّتِيْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَةَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّھُمْ (بخاری ۱/۴۰۹)

          اس حدیث میں پہلا لفظ جو یاد رکھنے کے قابل ہے أولُ جیش ہے، یزید ہر گز اول جیش میں شامل نہیں ہے؛ چنانچہ آئندہ صفحات میں حدیث وتاریخ کی روشنی میں اس کا مفصل ومدلل تذکرہ کیا جائے گا۔ دوسرا لفظ مدینة قیصر کا ہے، غزوہٴ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے کے دوران چٹان کو توڑنے اور اس سے بجلی چمکنے کا جو منظر دکھایا گیا تھا[1]جس کی تشریح لسانِ نبوت نے قیصروکسریٰ کے محلات سے کی تھی، اس کی فتوحات کی تکمیل سیدنا عمر فاروق کی خلافت کے تین سالوں میں ہوگئی تھی؛ چنانچہ علامہ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں لکھا ہے: وَاسْتَوْلیٰ الْمُسْلِمُوْنَ فِيْ ثَلاَثَةِ أعْوَامٍ عَلٰی کُرْسِيِّ مَمْلَکَةِ کِسْریٰ وَعَلیٰ کرسِیِّ مَمْلَکَةِ قَیْصَرَ وَعَلیٰ اُمَّیْ بِلاَدُھُمَا (سیراعلام النبلا ۲۸/۱۱۶)

          ترجمہ: (سیدنا عمر کے دورِ خلافت کے) صرف تین سالوں (۱۴ھ تا ۱۶ھ) میں مسلمانوں نے قیصر وکسریٰ کے تخت اور ان کے اہم شہروں کو فتح کرلیاتھا۔

          یہاں مدینہٴ قیصر کو سمجھنے کے لیے بخاری و ترمذی کی اس حدیث کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِ مبارک نقل کیا ہے:

          اِذَا ھَلَکَ کِسْریٰ فَلاَ کِسْرَیٰ بَعْدَہ وَاذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہ لَتُنْفِقَنَّ کُنُوْزَھُمَا فِيْ سَبِیْلِ اللہِ (بخاری ۱/۴۲۵، ترمذی ابواب الفتن، باب اذا ذہب کسریٰ ۲/۴۵) قال الترمذی ھذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ

          قَالَ الْمُحَشِّيْ قولُہ اذَا ھَلَکَ کِسْریٰ فَلاَ کِسْریٰ بَعْدَہ بِالْعِرَاقِ وَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہ بِالشَّامِ وَذٰلِکَ أنَّ قُوَیْشًا کَانَتْ بِالشَّامِ وَالْعِرَاقِ کَثِیْرًا لِلتِّجَارَةِ فَلَمَّا اَسْلَمُوْا خَافُوا انْقِطَاعَ سَفَرِھِمْ الَیْھِمَا فَبَشَّرُوْا بِذٰلِکَ وَکَذا وَقَعَ بِحَمْدِ اللہِ،اہ مجمع بحار الانوار (حاشیہ ترمذی۴، ۲/۴۵)

          حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ہرقل کو صلحِ حدیبیہ کے بعد خط لکھا تھا اور حضرت دحیہ کلبی کو خط دے کر بصریٰ بھیجا تھاان دنوں روم کا بادشاہ ہرقل حمص ہوکر ایلیا پہنچا تھا، وہیں اس کو حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہٴ مبارک دیاگیا تھا، اس نے ابوسفیان کو بلواکر حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو احوال معلوم کیے تھے، وہ سب واقعات ملکِ شام ہی میں پیش آئے تھے۔ (ملاحظہ ہو بخاری کتاب الجہاد باب ۱۰۲، حدیث ۲۸۵۲، ۲۸۵۳)

          مندرجہ روایات کے تناظر میں مدینہٴ قیصر کا مصداق احقر کے نزدیک قسطنطنیہ نہیں؛ بلکہ ملکِ شام کا علاقہ ہے، تاہم اگر دریائی سفر کرکے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والا پہلا لشکر مراد ہے تب بھی اس کا مصداق سیدنا معاویہ اور ان کے دیگر رفقاء ہیں جس میں یزید ہرگز شامل نہیں ہے؛ لیکن اس کی تفصیل جاننے سے قبل بطور جملہٴ معترضہ کے علامہ ذہبی کا ایک بیان پڑھ لیجیے، انھوں نے خلافتِ راشدہ کے تذکرہ میں ۲۰ھ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

          وَفِیْھَا (أيْ فِيْ سَنَةِ عِشْرِیْنَ) ھَلَکَ ھِرَقْلُ عَظِیْمُ الرُّوْمِ وَھُوَ الَّذِيْ کَتَبَ الَیْہِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَدْعُوْہُ الٰی الاسْلاَمِ وَقَامَ بَعْدَہ ابْنُہ قُسْطُنْطِیْنُ (سیراعلام النبلا ۲۸/۱۲۵)

          ترجمہ: جس ہرقل کو حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نامہٴ مبارک لکھا تھا، اس کی وفات سن ۲۰ھ میں ہوگئی، اس کی وفات کے بعداس کا بیٹا قسطنطین اس کا جانشین ہوا، جو قسطنطنیہ میں رہا کرتا تھا۔ ۳۲ھ میں سیدنا معاویہ نے اس سے جنگ کرتے ہوئے اپنا لشکر قسطنطنیہ کی گھاٹی تک پہنچادیا تھا؛ چنانچہ علامہ ذہبی نے ۳۲ھ کے ذیل میں لکھا ہے: فِیْھَا کَانَتْ وَقْعَةُ الْمُضِیْقِ بِالْقُرْبِ مِنْ قُسْطُنْطُنْیَةَ وَأمِیْرُھَا مُعَاوِیَةُ (سیراعلام النبلاء ۲۸/۱۸۱)

          علامہ ابن کثیر نے بھی ”البدایہ والنہایہ“ جلد سابع میں لکھا ہے:

          ثُمَّ دَخَلَتْ سنةُ ثْنَتَیْنِ وَثَلاَثِیْنَ وَفِیْھَا غزا مُعَاوِیَةُ بِلاَدَ الرُّوْمِ حَتّٰی بَلَغَ الْمُضِیْقَ مُضِیْقَ قُسْطُنْطُنِیَةَ (البدایہ والنہایہ لابن کثیر ۷/۱۵۹)

          امام طبری نے بھی ۳۲ھ کے اہم واقعات کے تحت واقدی اور ابو معشر کی روایت سے سیدنا معاویہ بن سفیان کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تاریخ طبری مترجم حصہ سوم ۳۶۵، خلافتِ راشدہ۲)             (باقی)

$ $ $



[1] نسائی شریف کتاب الجہاد، باب غزوة التبوک والحبشة ۲/۵۳۔

 

 

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 98 ‏، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء